!اے میرے وطن کے جوانو سنو
!اے غفلت میں سوئے دیوانو سنو
کب تک سہو گے یہ ظلم و ستم
کب تک چھپاو گے اپنے زخم
کب تک جلیں گے تمھارے مکاں
کب تک نہ کھولو گے اپنی زباں
کب تک بہے گا تمھارا لہو
کب تک کرو گے یوں خوں سے وضو
کب تک تم مانگو گے دنیا سے بھیک
کب تک کراو گے اپنی تضحیک
کب تک نہ پہچانو گے اغیار کو
مکار کو ’ قوم کے غدار کو
کب تک جلائیں گے تمھیں حکمراں
کب تک رہیں گی مائیں نوحہ کناں
کب تک رہو گے تم اُنکے غلام
کب تک کرو گے خودی کو نیلام
کب تک چلے گا یہ وحشیانہ نظام
کب تک نہ ڈھلے گی یہ ظلمت کی شام
کب تک رہیں گے قصرِ سلطان روشن
اور تاریکی میں ڈوبیں گے تمھارے نشیمن
کب تک جیو گے یوں سہمے ہوئے
کب تک چلو گے رسن پہنے ہوئے
جاگو کہ غفلت کی حد ہو گئی
جہالت تمھاری دراز قد ہو گئی
توڑ دو غلامی کی زنجیر کو
خود تم لکھو اپنی تقدیر کو
اٹھو اور چراغِ سحر کو جلا دو
ظلمت کے ایوانوں کو آگ لگا دو
مظلوم کو ظالم کے شر سے پناہ دو
غلاموں کو آزادی کی راہ دکھا دو
سینوں کو ایماں کی حرارت سے تپا دو
کوشکِ سلطانی کے در و دیوار ہلا دو
باطل کو پھر جذبہء شبیری سے لڑا دو
پھر اُسے علی اکبر کی اذان سنا دو
اٹھو کہ اب مر چلا ہے وطن
اس سے پہلے کہ مل جائے اِسکو کفن