وہ شہر کیا تھا گوہرؔ ’ بس اِک ہجوم سا تھا
جہاں کا ہر فرد ہی محکوم سا تھا
یوں عیاں تھی ویرانی در و دیوار سے
جیسے کوئی گھر معدوم سا تھا
خواب بھی بنتی نہ تھی امید کی شب
تعبیر کا گویا اسے معلوم سا تھا
بے بسی پہ اس کی لہو رویا تھا فلک
ماں نے بیچا جب ایک معصوم سا تھا
سلگتی آنکھوں میں کچھ سوال تو تھے
خشک ان کا مگر حلقوم سا تھا
خوف کے سائے میں پلتا وہ شہر
زندہ تو تھا مگر مرحوم سا تھا
hmmm good....
ReplyDelete