دنیا کی رعنائیوں میں میں ایسا کھو گیا
خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب ضمیر سو گیا
ابتدا میں تو صرفِ نظر گناہانِ صغیر سے کیا
پر رفتہ رفتہ قلب شناسائے گناہانِ کبیر ہو گیا
پھر احساسِ ندامت بھی پرواز کر گیا
دل کثرتِ گناہ سے سخت گیر ہو گیا
دنیا کی خواہشوں نے کچھ ایسا جکڑ لیا
کہ زلفِ نفسِ عمارہ کا اسیر ہو گیا
سکوں کی کھنک میں کھو گئی اذان کی آواز
اور ابلیس میری نماز کا امیر ہو گیا
دنیا کو دیکھنے لگا تکبر کی آنکھ سے
ہر شخص میری نظر میں اب حقیر ہو گیا
خلقِ خدا پہ ظلم میں میں اتنا بڑھ گیا
کہ ہرملا کی کمان سے نکلا ہوا تیر ہو گیا
جھوٹ سے زبان یوں مانوس ہو گئی
گویا کسی منافق کی تقریر ہو گیا
جانا تو نہیں چاہتا تھا لذتِ دنیا کو چھوڑ کر
پر اک روز اپنی موت سے بغل گیر ہو گیا
وہ تاج و تخت وہ محل و محلات سب پیچھے رہ گئے
بس دو گز زمیں کا ٹکڑا میری جاگیر ہو گیا
دم بھی نہ لینے پایا تھا پل بھر کو لحد میں
کہ شروع سلسلہِ سوالِ منکر و نکیر ہو گیا
دنیا میں کمائی دولت نہ کچھ کام آ سکی
کل کا تھا بادشاہ پر آج کا فقیر ہو گیا
گوہرؔ کلام مجھ سے یوں ذوالجلال نے کیا
دہکتا ہوا جہنم تیری تقدیر ہو گیا
good
ReplyDelete