عرفاں کی نظر کا نور ہے یقیں
کمالِ علم و شعور ہے یقیں
گر ہو پیدا سجودِ مردِ مومن میں
تو غیب کو بخشے حضور ہے یقیں
لرزا نہیں جو آتشِ نمرود دیکھ کر
اٌس عزمِ ابراہیمؑ کا سرور ہے یقیں
محتاج نہیں الفاظ کی ، اظہار کے لئے
میسمؓ کی کٹی زبان میں مستور ہے یقیں
بیچ کر نفس کو بازارِ عشق و مستی میں
شبِ ہجرت نبیؐ کے بستر پہ مخمور ہے یقیں
جانا یہ شہِ دیں نے چراغوں کو بجھا کر
کربل کے ہر مجاہد کا منشور ہے یقیں
دیکھوں جو گوہرؔ حجابِ آسمانی کو کھول کر
تفاوت نہ ہو نظر میں تو ضرور ہے یقیں
Awesome stuff. Kya khenay :D
ReplyDelete